صغیر احمد صغیر … ہر اک کو اپنی کمائی پلٹ کے آتی ہے

ہر اک کو اپنی کمائی پلٹ کے آتی ہے
بھلائی ہو کہ برائی پلٹ کے آتی ہے

جو بات کی تھی کسی پر وہ اب سنو بھی سہی
کہا نہ تھا کہ یہ بھائی! پلٹ کے آتی ہے

میں اس کے عکس کو دیوار پر لگاؤں ذرا؟
دکھاؤں؟ کیسے خدائی پلٹ کے آتی ہے؟

حسین ہونٹوں کی تعریف جب بھی کرتے ہیں
ادھر سے تلخ نوائی پلٹ کے آتی ہے

صغیر دل ہے کہ خالی مکان ہے کوئی
کہ آہ بن کے دہائی، پلٹ کے آتی ہے

Related posts

One Thought to “صغیر احمد صغیر … ہر اک کو اپنی کمائی پلٹ کے آتی ہے”

  1. انور کاظمی

    بہت خوب، ماشاءاللہ

Leave a Comment